حضرت مخدوم صابرکلیری
حضرت مخدوم صابرکلیری رحمۃ اللہ علیہ
آپ کاوصال 13/ربیع الاول 690ھ کو ہوا !
از قلم : : محمد محفوظ قادری
اللہ رب العزت اپنے مقرب ومحبوب بندے اولیاے کاملین کا ذکرفرماتے ہوئے اپنی مقدس کتاب قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے’’بے شک وہ( لوگ) جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے،ان پر فرشتے اتر تے ہیں،کہ نہ ڈرواور نہ غم کرو اورخوش رہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے‘‘ (قرآن)
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے انبیاے کرام ومرسلین عظام کو جلوہ گر فرمایا اور سب نے اپنے اپنے دور میں اللہ کے بندوں کی ہدایت ورہ نمائی کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔
ہمارے آخری بنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس ہدایت ورہبری کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اولیاے کرام بھیجے گیے تا قیامت یہ سلسلہ ان کے ذریعہ جاری رہے گا ۔
اللہ کے وہ خاص بندے جو اس کی ذات وصفات کی معرفت رکھتے ہیں اور اپنے رب کی عبادت وریاضت میں لگے رہتے ہیں ان کو اللہ رب العزت اپنا قرب خاص عطا فرماتا ہے ان نیک بندوں کو اولیاے کاملین کہتے ہیں ان خوش نصیب بندوں کو نہ کسی قسم کا خوف ہوتا ہے اور نہ غم اور ان مقبولان بارگاہ سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں اور یہ کرامتیں درحقیقت انبیاے کرام کے معجزات کی جھلک ہوا کرتی ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ذریعہ طریقت کے چارسلسلے بہت مشہورومعروف ہیں پہلاسلسلہ نقشبندیہ،یہ سلسلہ خسررسول خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مل جاتاہے۔
باقی تینوں مشہور سلاسل داماد رسول خلیفہ چہارم مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ سے مل جاتے ہیں۔ اوران چاروں سلاسل کے وابستگان ملک ہندوستان میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
غیرمنقسم ہندوستان میں حضرت مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ متوفیٰ 465ھء نے سب سے پہلے لاہور سے طریقت کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا،ان کی یہ کوشش انفرادی طورپر تھی۔
آپ کے بعد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی رحمۃ اللہ علیہ متوفیٰ633ھ نے اجمیرکواپنا مرکزبناکر سلسلہ چشتیہ کی بنیاد رکھی۔
آپ کے بعد حضرت بہائوالدین زکریاملتانی رحمۃ اللہ علیہ متوفیٰ661ھ نے ملتان سے سلسلہ سہروردیہ جاری کیا۔ آپ کے بعد مغربی پنجاب میں حضرت سیدمحمدغوث گیلانی رحمۃ اللہ علیہ متوفیٰ 970ھ نے سلسلہ قادریہ کی تعلیم شروع کی۔ آپ کے بعد اکبری دور میں حضرت خواجہ باقی باللہ صاحبؒ متوفیٰ 1012ھ نے سلسلہ نقشبندیہ کااجراکیا۔
سلسلہ چشتیہ معینیہ کی تیسری کڑی حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکر رحمۃ اللہ علیہ متوفیٰ 664ھ ہیں،آپ کوحضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کاخلیفہ اعظم ہونے کاشرف حاصل ہے۔
حضرت بابافریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ کے بے شمار خلفا ہوئے جن میں تین کوبہت زیادہ فضیلت وشہرت حاصل ہوئی۔ پہلے خلیفہ حضرت جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں،ان کاوصال پیرومرشدحضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی حیات میں ہی ہوگیا تھا،ان کے ذریعہ سلسلہ کوترقی نہیں مل سکی۔
دوسرے خلیفہ اعظم حضرت مخدوم علاؤالدین علی احمد صابرکلیری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کوخلافت عطافرماکربراہ راست کلیرکی ولایت (قطبیت) سپرد کی تھی۔
تیسرے خلیفہ سلطان المشائخ حضرت سید نظام الدین محبوب الٰہی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انہیں بیعت کے تین سال بعد خلافت عطافرماکردہلی کے لیے خاص کیا۔
حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ برصغیر ہند وپاک میں سلسلہ چشتیہ کے بہت ہی عظیم بزرگ شمار کیے جاتے ہیں ،آپ سے ہی سلسلہ چشتیہ کی شاخ سلسلہ صابریہ منصوب ہے۔ آپ کی پیدائش19/ربیع الاول 592ھ تہجد کی نماز کے وقت شب کا ایک حصہ باقی تھا جمعرات کے دن ’’ہرات‘‘ میں ہوئی ،بعض نے آپ کی پیدائش کی جگہ قصبہ کھوتوال بھی لکھی ہے۔
آپ خاندان سادات سے حسنی حسینی سید ہیں۔آپ کے والد شیخ عبداللہ بن شیخ عبدالرحیم ہیں،یعنی شیخ عبداللہ حضرت غوث اعظمؒ کے پرپوتے تھے،آپ والدہ کی طرف سے فاروقی ہیں،آپ کی والدہ حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی حقیقی بہن تھیں۔
بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت صابر پاک کی پیدائش سے پہلے مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خواب میں بشارت دی تھی کہ مولود کا نام’’علی‘‘ رکھنا ، پھرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا عالم رئویامیں حکم ہوا کہ نام ’’ احمد‘‘ہونا چاہیے ،اور وقت تسمیہ (بسم اللہ خوانی)کسی بزرگ نے آپ کانام علاؤالدین تجویز کیا، بقول ’’ سیرالاقطاب ‘‘دربار الٰہی سے ’’مخدوم ‘‘ کا خطاب عطا ہوا،بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ (آپ کے ماموں)نے ’’صابر‘‘کا لقب عطافرمایا۔
اس طرح آپ’’مخدوم علائوالدین علی احمدصابر‘‘کلیری کے نام سے مشہور ہوئے۔
ان مضامین کو بھی پڑھیں:
پیدائش کے وقت رونما ہونے والاواقعہ :
پیدائش کے وقت دایہ نے دیکھاکہ آپ کاسرمبارک کعبتہ اللہ کی جانب تھا،دایہ نے آپ کوغسل دینے کے لیے بغیروضوہاتھ لگانا چاہا ایک دم جسم میں آگ کی سی(شدید)حرارت پیداہوئی،دایہ گھبرائی اورتائب ہوکرعلیٰحدہ کھڑی ہوگئی۔
دایہ کا یہ حال دیکھ کرصابرپاک کی والدہ نے ہدایت کی کہ اے دایہ!تجھ کومعلوم نہیں یہ لڑکا اولاد غوث اعظم عبدالقادر جیلانی ہے اور اس کے اِس دنیامیں آنے کی خبروں سے ایک دفترمرتب ہے۔
جلدی وضوکر ساتھ ہی صلوٰۃ استغفار پڑھ کر،غسل کے واسطے(صابرپاک)کوہاتھ لگا۔
دایہ نے حکم کی تکمیل کی غسل کرایا،غسل کے بعدجدامجدکاپارچہ متبرکہ ’’قمیص‘‘ کی صورت میں پہناکرگودمیں لٹایا۔
جب آپ ساتویں سال میں شروع ہوئے توزندگی کے اوقات نہایت ہی تنگی سے بسر ہورہے تھے آپ کی والدہ صاحبہ کسی سے اس بات کا ذکر نہیں فرماتی تھیں چوتھے یا پانچویں دن خشک روٹی میسر آجاتی تھی،اسی طرح صابرپاک آٹھ پہر میں ایک مرتبہ بعدمغرب تھوڑاساپانی پی لیا کرتے تھے
یا میسرہونے پر خشک روٹی تناول فرمالیا کرتے تھے اور رات کو بغیر بستر کے زمین پرآرام فرمایا کرتے تھے اس طرح آپ کی زندگی کے سات سال مکمل ہوئے ایک دن آپ نے والدہ سے کہاکہ مجھے سخت بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو دیجیے،والدہ فرماتی ہیں کہ گھرمیں تنگی کی وجہ سے کچھ کھانے کونہیں تھا،میں دوپہرتک کچھ نہ کچھ بہانا بناتی رہی کسی سے سوال کرنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔
یہاں تک کہ صابرپاک نمازظہراداکرکے میرے پاس تشریف لائے بھوک کی سختی سے بیتاب تھے میں نے اطمینان کے واسطے دیگچی میں پانی کرکے آگ پر رکھ دیا جب مخدوم علی احمد مجھ سے کھانا طلب کرتے تومیں کہہ دیتی کہ کھانا ابھی تیارہورہا ہے ۔
یہاں تک کہ مغرب کی نماز کے بعد مخدوم علی احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے کہا کہ مجھے کچَّاہی کھانا کھلا دیجئے، یہ کہہ کرمخدوم خود اس پانی کو دیکھ کرکہنے لگے کہ چاول پک گئے ہیں آپ مجھ کو جلدی سے کھلادو،مخدوم کی زبان سے یہ سن کر میں نے تعجب سے دیکھا تو چاولوں کو پکا ہوا پایااور مخدوم کووہ چاول کھلا دیے۔
اس واقعہ کے بعد والدہ نے محمدابوالقاسم گرگامیؒ(خانوادئہ مخددم پاک کے خاص خدام میں سے تھے)سے فرمایا کہ صابر اب باطنی تعلیم سے فیضیابی کے قابل ہوگئے ہیں اگر آپ کی رائے ہوتومخدوم کواب مسعود العالمین،قطب عالم،اغیاث ہند حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ (ماموں)کے پاس پہنچا دیا جائے۔ یہ سن کر محمد ابوالقاسم گرگامی مع والدہ صاحبہ صابرپاک کوساتھ لے کر اجودھن المعروف پاک پٹنہ ملتان شریف کے لیے روانہ ہوئے۔
الغرض گیارہ دن میں ’’اسم اعظم جنیدیہ‘‘کاورد کرتے ہوئے پاک پٹن شریف پہنچے۔
دیکھاکہ حضرت بابافریدالدین گنج شکررحمتہ اللہ علیہ کو اس مقام پر قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے دست مبارک پرمجازِ مرفوع الاجازت ہوئے دوسال گزرچکے تھے۔
جس وقت صابر پاک کو والدہ صاحبہ نے ماموں جان حضرت مسعودالعالمین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی گود میں بٹھایا دیکھاکہ مخدوم علی احمدپرایک عجیب جذب کی حالت طاری ہورہی تھی اور سب سے پہلا جملہ باباصاحب کی گود میں صابر پاک کی زبان مبارک سے نکلا کہ آج سے تین برس کے بعد میرے جدامجد کا وصال ہوجائے گایہ سن کر حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم نے کیسے پہچانا حضرت شاہ سیف الدین عبدالوہاب (تمہارے جد امجد) کا وصال ہوجائے گا وہ بغداد میں ہیں اور تم یہاں۔
صابرپاک نے فرمایا کہ میں نے اپنے قلب کو دیکھا میرے والد محترم کی صورت میرے سامنے آگئی،اس صورت نے تین انگلیاں اپنے دست مبارک کی میرے سامنے اٹھائیں اس امر سے موت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔
یہ سنتے ہی ایک دم قطب عالم مسعودالعالمین اغیاث ہند فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے مخدوم علی احمدصابرکواپنے سینئہ فیض گنجینہ سے لگایا اس وقت حضرت ممدوح پر بھی حال وجد طاری ہوچکا تھا اورحضرت صابرپاک کے لیے زبان مبارک سے یہ کلمات جاری ہورہے تھے۔
مرحبا فرزندعلی احمد صابر”بطن الولی بطن الولی بطن الولی”۔ کمال استغراق،کیفیت حال وجد میں قطب عالم اغیاث ہند نے اپنے سیدھے ہاتھ کی تین انگلیاں حضرت مخدوم علی احمد صابر کے قلب پر رکھ کر تین مرتبہ وجد کی حالت میں فرمایا کہ تجھ سے تین حمان ذات ہوں گے،جب قطب عالم کوحال وجد سے کچھ افاقہ ہوا تو صابرپاک کی والدہ نے اپنے بھائی قطب عالم سے فرمایا کہ میں اس لڑکے (صابر) کوآپ کی غلامی کے واسطے لائی ہوں ،اسے قبول فرمالیں۔
بابا صاحب نے قبول فرماتے ہوئے بہن سے فرمایا کہ تین سال کے بعد میں اس کو طریقت کی تعلیم سے فیضیاب کروں گا ،اس دوران صابر کو ظاہری تعلیم کی بھی ضرورت ہے ،بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تین سال میں علوم ظاہری اس قدر تیزی سے صابر پاک نے حاصل کئے کہ کوئی دوسرا لڑکا چھ سال میں بھی حاصل کرنے سے قاصر رہتا۔ (از۔۔حقیقت گلزارصابری)
خلافت :
مشہور ہے کہ حضرت علائوالدین علی احمدصابر ؒپیدائشی مجذوب تھے،مگر حقیقت یہی ہے کہ مجاذیب خلافت کے مستحق نہیں ہوا کرتے۔حضرت چراغ دہلویؒ نے لکھاہے کہ ’’شیخی کے لائق سالک کامل،سالک مجذوب اور مجذوب سالک ہوتے ہیں۔فقط مجاذیب نہیں ہواکرتے‘‘۔
خلافت کامقصد سلسلہ کی اشاعت وتبلیغ ہے،یہ کام ظاہری طورپر مجاذیب سے ممکن نہیں۔
سلوک کی منزل میں مبتدی کو صرف سالک کا خطاب دیا جاتا ہے۔ دوسری منزل میں وہ سالک مجذوب کہلاتا ہے۔
تیسرے درجہ میں وہ مجذوب کی منزل حاصل کر لیتا ہے۔ اور ہوش وحواس کی خبر نہ ہونے کی وجہ سے شریعت سے بھی اس کا تعلق کٹ جاتا ہے۔
اس مقام سے ترقی کرکے وہ سلوک کی طرف لگ جاتا ہے،اس لئے اس کو مجذوب سالک کہاجاتا ہے۔ اس درجہ میں اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ رُخ میری طرف نظر کہیں اور۔ اس کے بعد پانچویں منزل میں سالک بن جاتا ہے۔حضرت صابرپاک کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مجذوب سالک تھے اور آپ کواسی منزل میں حضرت بابافرالدین مسعودگنج شکر رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت حاصل ہوئی۔
حضرت بابافریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تین سال بعد نماز مغرب سے پہلے میں نے مخدوم علی احمدصابر کو اپنے ہاتھ پر بیعت کیا۔
آپ کوبیعت کے بائیس سال بعد33سال کی عمر میں 646ھ میں خلافت سے نوازہ اور اسی سال باقاعدہ آپ کوکلیر کی ولایت(قطبیت) بھی عطافرمائی،صابر پاک نے وصال تک ولایت کلیر کاانتظام سنبھالا اور سلسلہ کی تبلیغ بھی فرمائی
اور آج تک یہ دونوں کام آپ کے فیض باطنی سے جاری وساری ہیں۔ اقتباس الانوار میں ہے کہ آپ ’’کلیر پہنچتے ہی عبادت اورفیض رسانی میں مصروف ہوگیے تھے اور بعد وصال بھی فیض اسی طرح جاری ہے کہ جس طرح حیات میں تھا‘‘۔
تذکرہ جات صابری میں لکھا ہے کہ مخدوم پاک رحمۃ اللہ علیہ ہمہ وقت مستغرق رہتے تھے اور مسجد میں نماز پڑھنے بھی جایا کرتے تھے۔یہ عمل آپ کے مجذوب سالک ہونے اور شریعت مطہرہ کی پابندی پردلالت کرتاہے جس کے ذریعہ آپ کی طرف منسوب بے سروپا افواہوں کا سد باب بھی ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ مشہورہے مخدوم پاک رحمۃ اللہ علیہ بہت زیادہ جلالی تھے ان کے جلال کو مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے جس کوسن کرصاحب عقل وفہم حیران رہ جاتے ہیں،کلیجہ منہ کو آتاہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان جلالی شانوں کے بیان کرنے والے صاحب علم وفضل تذکرہ نگار بھی ہیں۔
بلکہ سمجھداری کا ثبوت اسی میں تھا اہل عقیدت ومحبت کے سامنے صابر پاک کے حالات بیان کرتے ہوئے بتاتے کہ جس کو جلال صابری کہاجاتا ہے وہ جلال نہیں بلکہ حقیقت میں وہ روح کی تجلی تھااور اسی تجلی سے اہل عقیدت ومحبت کو صابرپاک مستفیض کیا کرتے تھے۔
اگرصابر پاک کے فیضان میں قہر شامل ہوتا توسلسلہ کی اس قدر اشاعت ممکن نہیں ہوتی ۔ اولیاے کرام کی کرامتوں کا انکا رنہیں کیا جاسکتا ان کرامتوں سے دل کو تقویت وسکون حاصل ہوتاہے اور یہی کرامتیں حق کی طرف رہ نمائی کرتی ہیں۔ جوکرامتیں صابر پاک سے منسوب کی جاتی ہیں ان سے عجوبیت ظاہر ہوتی ہے اور عجوبیت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔
اہل عقیدت نسبت کی وجہ سے ان باتوں کو تسلیم کرلیتے ہیں ادب کی وجہ سے انکار نہیں کرپاتے ہیں۔ اسی وجہ سے گستاخ اولیاے کو اعتراض کاموقع ملتا ہے اور عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں،لہٰذاتذکرہ نگاروں کو ان باتوں سے اجتناب کرناچاہیے۔
صابرپاکؒ کے مقام ومرتبہ سے کبھی بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اللہ رب العزت نے آپ کو اولیاء کرام کی جماعت میں نہایت ہی اعلیٰ مقام ومرتبہ پر فائز کیا ہے جس طرح آپ نے اپنی حیات میں اللہ کے بندوں کوخوب فیضیاب کیا بعد وصال بھی اسی طرح مخلوق خدا صابری فیض سے فیضاب ہورہی ہے اور تاقیامت ہوتی رہے گی ۔(ان شااللہ)
حیرت ہوتی ہے کہ کسی نے بھی حضرت مخدوم پاک کی تعلیمات وتلقین کو بیان کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ان کے کسی ارشاد کو بیان کیا اولیاے کرام کی شان وعظمت ان کے تقویٰ اورخشیت سے سمجھی جاتی ہے لیکن آپ کے حالات کو عوام کے سامنے اس طرح بیان کیا گیاکہ جس سے عوام میں خوف وحراس پیدا ہو۔بلکہ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ آپ کے جلال کوروح کی تجلی بتاتے اوراس تجلی کواللہ کے بندں کی ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ قراردیتے۔
آپ کے خلفا :
آپ کے خلفا میں صرف حضرت شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کا نام آتاہے۔کسی اورکو آپ نے خلافت عطانہیں فرمائی،اس پرکچھ مخلصین نے حضرت صابرپاک سے عرض کی کہ آپ کے برادر طریقت حضرت نظام الدین محبوب الٰہی کے’’ الحمدللہ ‘‘بہت سے خلفا ہیں،سرکار کی توجہ اس طرف کچھ کم نظر آتی ہے۔یہ سن کر آپ نے اپنی خاص کیفیت میں یہ جملہ ارشاد فرمایا ’’مرایک شمس کافی است‘‘یعنی میراایک شمس الدین ہی کافی ہے۔
آپ کے اس جملہ کا فیضان یوں ظاہر ہوا،کہ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خاص ہوئے حضرت جلال الدین کبیرالاولیا رحمۃ اللہ علیہ ۔اور آپ کے خلیفہ خاص ہوئے شیخ العالم شیخ احمد عبدالحق صاحب توشہ ردولوی رحمۃ اللہ علیہ ،آپ کو اللہ نے بہت اعلیٰ شان عطافرمائی تھی
ہمیشہ آپ جمال خداوندی کے مشاہدے میں غرق رہتے تھے اوردویاتین موقعوں کے علاوہ آپ اپنی آنکھیں نہیں کھولتے تھے پہلے نماز پنجگانہ،دوسرے نمازتہجد تیسرے طالبوں کی ہدایت وتربیت،دوست واحباب سے ملاقات کے لیے۔ آپ کو ہوشیار کرنے طریقہ یہ تھا کہ جب نماز کا وقت آتا یا کوئی ملاقات کے لیے آتا توخدام تین مرتبہ بآوازبلند’’حق،حق،حق‘‘ کہتے۔
حق کی صدائیں بلند ہونے پر آپ آنکھوں کوکھولتے اور سبب دریافت کرتے۔لوگوں کا بیان ہے کہ جب پہلی مرتبہ حق کہاجاتا توعالم لاہوت سے عالم جبروت میں تشریف لاتے تھے،دوسری حق کی آواز سے جبروت سے عالم ملکوت میں نزول فرماتے تھے
تیسری حق کی آواز سے عالم ملکوت سے عالم ناسوت کی طرف توجہ فرماتے تھے۔اس کے بعد پھرپہلی کی طرح عالم احدیت میں فنااور مستغرق ہوجاتے تھے۔(از۔۔انوارالعیون فی اسرارالمکون)
آپ کے ہی سلسلہ میں شاہ عبدالقدوگنگوہی جیسے عظیم بزگ ہوئے جنہونے سلسلہ چشتیہ صابریہ کی خوب اشاعت کی۔
لہٰذاآج برصغیر ہندوپاک بلکہ پوری دنیامیں سلسلہ صابریہ وچشتیہ کی جواشاعت وتبلیغ ہورہی ہے،وہ کسی بھی طورسلسلہ نظامیہ چشتیہ سے کم نظرنہیں آتی یہ حضرت مخدوم پاک کے اِس جملہ کا فیضان نظرآتاہے۔
آپ کا وصال :
مخدوم پاک کا وصال 13ربیع الاول690ھ کوہوا۔
آپ کامزارمبارک :
رُڑکی ریلوی اسٹیشن سے صابرپاک کی درگاہ تک تقریباً پانچ میل کا فاصلہ ہے،نہرکے برابرسے سڑک گزرتی ہے راستہ کا منظرخوش گوار ہے۔ آدھے راستہ پر سولانی ندی ہے،اس کے آگے کو جیسے ہی بڑھتے ہیں صابری گنبد اپنی طرف کو متوجہ کرتاہے۔ اسی طرح آگے کوبڑھتے ہوئے مزارپرانوارپر حاضری کا شرف حاصل ہوتا ہے اسی مقام کا نام ’’کلیرشریف ‘‘ ہے۔
سڑک اور نہرکی بائیں جانب درگاہ کے احاطہ تک خالی میدان ہے یہاں سواریاںوغیرہ کھڑی ہوتی ہیں۔ اسی سے متصل رامپور اور بریلی کے وابستگان سلسلہ صابریہ کی پکی قیام گاہیں(خانقاہیں) ہیں۔
اللہ رب العزت اپنے اس محبوب ولئی کامل کے فیضان سے اپنی مخلوق کوخوب فیض یاب فرمائے۔آمین
نقطٸہ : ۔ محمد محفوظ قادری
9759824259
نوجوانوں کی معاشی پریشانیوں کوکیسے دورکیا جائے؟ مال کی محبت کیسےختم کی جائے؟
مال کی محبت پیدا کیوں ہوتی ہے؟ تبدیلی کی تین سطحیں
اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار کرنے، اضافہ اوربرقرار رکھنے کے پچیس طریقے
اچھے ذریعۂ معاش کی ابتدا کیسے کریں! چند مفید باتیں
۔ 1925 سے 2025 تک، چوک کہاں ہو رہی ہے
یونیورسٹی جاتے علما: ایک تجزیہ