اور اب راہل گاندھی پارلیمنٹ سے بے دخل

Spread the love

اور اب راہل گاندھی پارلیمنٹ سے بے دخل

غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی

بھارتی سیاست میں ان دنوں وہ سب کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جو گذشتہ ستّر سال میں دیکھنے کو نہیں ملا۔

مجرمانہ اقدامات کے لیے سزا یافتہ ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کرنے کے لیے عوامی نمائندہ ایکٹ (People’s Representative Act) کا جس طرح استعمال کیا جارہا ہے اس نے اپوزیشن کے پاؤں تلے زمین نکال دی ہے۔

اس بار اس قانون کا نیا شکار راہل گاندھی بنے ہیں جو ملکی سیاست کا دوسرا سب سے بڑا چہرہ ہیں۔

کانگریس کے خلاف آئے اس فیصلے نے اپوزیشن پارٹیوں کی بے چینیوں میں اضافہ کردیا ہے انہیں لگ رہا ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت ایجنسیوں کا سہارا لے کر اپوزیشن لیڈروں کو دبانے کا کام کر رہی ہے، ٹھیک اسی طرز پر عدلیہ کے راستے اپوزیشن لیڈران کو اسمبلی اور پارلیمنٹ سے بے دخل کرنے کی مہم بھی شروع کر چکی ہے۔

اگر وقت رہتے اس مہم کو نہیں روکا گیا تو کوئی بھی اپوزیشن لیڈر حکومت کے خلاف کھڑا ہونا تو دور کھڑے ہونے کی سوچ بھی نہیں پائے گا۔

کیا ہے عوامی نمائندہ ایکٹ؟

پارلیمنٹ اور ایوان اسمبلی کو مجرمانہ افراد سے پاک رکھنے کے لیے سن 1951 میں عوامی نمائندہ ایکٹ(People’s Representative Act) بنایا گیا۔

جس کے تحت مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کو پارلیمنٹ اور ایوان اسمبلی سے نااہل قرار دینے کا نظم ہے۔اسی قانون کی دفعہ 8 کے تحت لکھا ہے کہ؛ “اگر کوئی ایم پی یا ایم ایل اے کسی مجرمانہ کیس میں قصور وار پایا جاتا ہے اور اسے دو یا دو سال سے زائد کی سزا سنائی جاتی ہے تو وہ پارلیمنٹ/اسمبلی کی رکنیت سے بے دخل ہوجائے گا۔”

اسی قانون کی دفعہ 8(1) کے تحت ان جرائم کی تفصیل بھی درج ہے جن میں ماخوذ پائے جانے پر بے دخلی کی کاروائی کی جائے گی۔

ان جرائم میں دو قوموں کے درمیان منافرت پھیلانا، مالی بدعنوانی اور زنا بالجبر جیسے جرائم شامل ہیں۔اگر کوئی لیڈر ان جرائم میں ملوث پایا جاتا ہے اور اسے کسی بھی کورٹ سے دو سال یا زیادہ کی سزا ملتی ہے تو وہ ہاؤس کی رکنیت سے بے دخل ہوجائے گا اور سزا کے بعد چھ سال تک الیکشن لڑنے پر بھی پابندی عائد ہوجائے گی۔

یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جرائم کی فہرست میں ہتک عزت(मानहानि) شامل نہیں ہے۔اس لیے اپنے آپ میں راہل گاندھی کا کیس بڑا دل چسپ ہوگیا ہے کہ راہل کو ہتک عزت کیس میں دو سال کی سزا سنائی گئی جو عوامی نمائندہ ایکٹ میں درج جرائم سے خارج ہے لیکن لوک سبھا اسپیکر نے کمال سرعت کے ساتھ صرف دس گھنٹے کے اندر ہی ان کی پارلیمانی رکنیت منسوخ قرار دے کر اپوزیشن کے سب سے بڑے چہرے کو پارلیمنٹ سے بے دخل کردیا۔

کیا یہ قانون سیاسی ہتھیار بن گیا ہے؟

سیاسی گلیاروں سے لے کر عوامی چوپالوں تک اس قانون پر بحث ومباحثہ کا دور جاری ہے۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جس طرح سی بی آئی اور ای ڈی (Enforcement Directorate) کا استعمال اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے ہوتا رہا ہے ٹھیک اسی طرز پر اب سیاسی مخالفین کے سیاسی بیانات پر عوامی نمائندہ ایکٹ کے ذریعے ہاؤسز سے بے دخلی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ لوگوں کا ایسا کہنا ایک حد تک صحیح بھی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اس سے پہلے اتر پردیش کے قد آور لیڈر محمد اعظم خان کو وزیر اعظم پر کی گئی ایک سیاسی تنقید کی بنیاد پر تین سال کی سزا سنائی گئی اور اسی کی آڑ میں عوامی نمائندہ ایکٹ کے ذریعے ان کی اسمبلی رکنیت منسوخ قرار دے دی گئی۔

ابھی اعظم صاحب کا معاملہ ذہنوں سے اوجھل بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے جواں سال بیٹے عبد اللہ اعظم کو 15 سال پرانے ایک کیس میں شامل مان کر دو سال کی سزا سنا دی گئی، اور اسی بنیاد پر ان کی اسمبلی رکنیت بھی فوراً منسوخ کردی گئی۔

حالاں کہ جس وقت مذکورہ معاملہ ہوا تھا اس وقت عبد اللہ اعظم کی عمر تقریباً 18 سال تھی اور وہ سیاست میں آئے بھی نہیں تھے۔وہ صرف اپنے والد اعظم خان کی کار میں سوار تھے۔

تھانا جھجلیٹ مرادآباد میں ان کے والد کو پولیس نے روکا۔جس پر اعظم صاحب کی پولیس سے نونک جھونک ہوگئی۔بعد میں پولیسیا زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے اعظم خان دھرنے پر بیٹھ گئے۔

بس اسی دھرنے کو پولیسیا کام میں مداخلت مان کر اعظم خان اور ان کے نوعمر بیٹے کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور اسی مقدمے پر سزا سنا کر عبد اللہ اعظم کی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔ اس کیس میں ایک نکتہ بطور خاص نوٹ کئے جانے لائق ہے۔وہ یہ کہ کیس میں نام زد ملزمین نو(9) تھے جن میں سے سات کو بری کردیا گیا سزا صرف اعظم اور ان کے بیٹے ہی کو سنائی گئی۔کیا اس سے نہیں لگتا کہ اصل نشانہ اعظم اور ان کے بیٹے ہی تھے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا صرف پولیس سے نونک جھونک کی بنیاد پر سزا سنائی جاتی ہے؟

پولیس اور سیاسی لیڈران کی نونک جھونک کوئی اتنا بڑا مدعا نہیں ہوتی کہ اسے مجرمانہ کیس بنایا جائے۔اگر کیس بنایا بھی گیا تو کیا 18 سالہ نوعمر عبد اللہ کے تئیں نرمی نہیں برتی جاسکتی تھی جب کہ وہ اس معاملے میں سرے سے شامل ہی نہیں تھا۔اس کا قصور محض اتنا تھا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ اس وقت کار میں سوار تھا۔اور پھر جس طرح مقدمے کے دیگر سات ملزمین کو بری کیا گیا کیا اسی طرح عبداللہ کو بری نہیں کیا جاسکتا تھا؟

یقیناً کیا جاسکتا تھا لیکن جب نشانہ ہی عبد اللہ ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ راہل گاندھی کے ساتھ بھی پیش آیا۔راہل نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت کرناٹک میں ایک سیاسی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نِیرو مودی، للت مودی جیسے بدعنوانوں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے کہہ دیا کہ سبھی چوروں کے سرنیم مودی ہی کیوں ہوتے ہیں؟

بس اسی سیاسی تنقید پر گجرات کے سورت میں مقدمہ قائم ہوا۔چار سال تک مقدمہ اپنی معمول کی رفتار سے چلتا رہا۔ادھر جیسے ہی معروف کاروباری گوتم اڈانی کو لے کر راہل کے مودی پر سیاسی حملے بڑھے اچانک سے مقدمے میں تیزی آئی اور 22 مارچ کو راہل گاندھی کو ہتک عزت کی بنا پر دو سال کی سزا سنا دی گئی۔

حالاں کہ جج نے سزا کو ایک مہینہ کے لیے مؤخر کیا تاکہ راہل چاہیں تو اسے اوپری عدالت میں چیلنج کرسکیں لیکن پارلیمنٹ کے اسپیکر نے اتنا انتظار کرنا بھی مناسب نہ سمجھا اور اگلے ہی دن راہل کی پارلیمانی رکنیت کو منسوخ کرنے کا نوٹس جاری کردیا۔

کیا اسپیکر کی یہ تیزی بلا وجہ تھی؟ جب متعلقہ کورٹ نے از خود ملزم کی سزا کو تیس دن کے لیے ملتوی رکھا تو اسپیکر صاحب کو جلدبازی کی کیا ضرورت تھی؟

اگر ہائی کورٹ/سپریم کورٹ سزا پر روک لگا دے یا کم کردے تب اسپیکر کی کاروائی کا کیا جواز رہ جائے گا؟

کیا اس وقت وہ اپنا نوٹس واپس لے سکیں گے؟ ایسا ہی سوال ہائی کورٹ نے اعظم خان کے معاملے میں الیکشن کمیشن سے پوچھا تھا جب اس نے بجلی سی تیزی دکھاتے ہوئے اعظم خان کی رکنیت منسوخ قرار دے کر ان کی سیٹ پر ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا تھا۔تو سپریم کورٹ نے کمیشن سے پوچھا تھا کہ آخر اتنی جلدی کی ضرورت کیا تھی، کم از کم ملزم کو اپیل کرنے تک کی مہلت تو دینا چاہیے تھی۔

مگر اس واقعے سے بھی کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اعظم ہی کی طرح راہل کو بھی بے دخلی کا نوٹس جاری کرکے اپنے ارادے صاف کر دئے گئے۔

جب معاملہ بی جے پی کا ہو یہاں یہ بات مزید دل چسپی پیدا کر دیتی ہے کہ ایسے امور میں اسپیکر/الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے اسی وقت فعال ہوتے ہیں جب معاملہ غیر بی جے پی ارکان سے جڑا ہو، لیکن اگر ملزمین کا تعلق بی جے پی سے ہو تب تو مہینوں تک کوئی ہلچل نہیں ہوتی بل کہ کوشش ہوتی ہے کہ قصور واروں کو بچا لیا جائے اور بچایا بھی گیا ہے۔

ایسا ہی ایک معاملہ ایم پی میں پیش آیا تھا جب دسمبر 2022 میں بی جے پی کے دو ممبران اسمبلی جج پال سنگھ ججی اور راہل سنگھ کو الیکشن کے وقت فرضی دستاویز لگانے اور ریٹرننگ افسر سے ملی بھگت کی بنیاد پر قصوروار قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ جاری ہوا اور ان کی رکنیت کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔

لیکن ایم پی اسمبلی کے اسپیکر نے اپنی پارٹی کے لیڈروں کو بچانے کے لیے پورا موقع دیا یہاں تک کہ دونوں لیڈر سپریم کورٹ گئے جہاں سے انہیں اسٹے مل گیا جس کی بنیاد پر سزا ہونے کے باوجود ان کی رکنیت منسوخ ہونے سے بچ گئی۔

اب یہاں یہ سوال پھر اتنی ہی شدت سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ جب مدھیہ پردیش میں بی جے پی اسپیکر اپنے ممبران اسمبلی کو سپریم کورٹ جانے تک کا موقع دیتے ہیں تاکہ ان کی رکنیت منسوخ ہونے سے بچ جائے تو لوک سبھا اسپیکر کو ایسی کون سی جلدبازی تھی کہ اعلان سزا کے دس گھنٹے کے اندر ہی انہوں نے راہل کی رکنیت منسوخ کر دی۔

اس جلد بازی سے کانگریس کے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی سازش کے تحت کیا گیا ہے۔تاکہ گوتم اڈانی اور وزیر اعظم مودی کے تعلقات پر کوئی لیڈر سوال نہ اٹھا سکے۔

راہل گاندھی کے خلاف ہونے والی یہ کاروائی معمولی نہیں ہے اگر ملک کی سب سے قدیم پارٹی اور سب سے پرانے خاندان کے لیدڑ کے ساتھ یہ کھیل ہوسکتا ہے تو مقامی اور صوبائی لیڈروں کی تو بساط ہی کیا ہے اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کو چاہیے کہ پوری شدت کے ساتھ اس فیصلے کی مخالفت کریں اگر اس محاذ پر حیلہ حوالی یا ٹال مٹول سے کام لیا گیا تو ملک کا کوئی بھی سیاسی لیڈر محفوظ نہیں بچے گا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس معاملے میں بی جے پی پر کڑی تنقید کی ہے لیکن بی جے پی پر تنقیدات کا کچھ خاص اثر نہیں پڑتا

اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کو یہ مدعا عوام تک لے کر جانا چاہیے تاکہ عوام کو سیاسی تاناشاہی کا پتا چل سکے کیوں کہ جب تک عوام کو حقائق کا علم نہیں ہوگا بر سر اقتدار پارٹی کی من مانیاں اسی طرح جاری رہیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *