داعی کے اوصاف

Spread the love

داعی کے اوصاف

مولانا محمد شمس الحق قادری رضا جامع مسجد پانی سال ہاٹ کشن گنج، بہار

رب کاٸنات ارشاد فرماتا ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- ترجمہ: کنزالعرفان اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو

اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تین طریقوں  سے لوگوں  کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم فرمایا۔

(1) حکمت کے ساتھ۔ اس سے وہ مضبوط دلیل مراد ہے جو حق کو واضح اور شُبہات کو زائل کردے۔

(2) اچھی نصیحت کے ساتھ۔ اس سے مراد ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی کام کرنے سے ڈرانا ۔

(3) سب سے اچھے طریقے سے بحث کرنے کے ساتھ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات اور دلائل سے بلائیں ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۵۱، ملخصاً)

 

اَمر بالمعروف کے آداب اور چند مسائل:  

 اس آیت کی مناسبت سے یہاں  امر بالمعروف کے آداب اور اس سے متعلق 6 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں

(1)…امربالمعروف یہ ہے کہ کسی کو اچھی بات کا حکم دینا مثلاً کسی سے نماز پڑھنے کو کہنا۔ اور نَہی عَنِ الْمُنْکَر کا مطلب یہ ہے کہ بری باتوں  سے منع کرنا۔

(2)…کسی کو گناہ کرتے دیکھے تو نہایت مَتانت اور نرمی کے ساتھ اسے منع کرے اور اسے اچھی طرح سمجھائے پھر اگر اس طریقہ سے کام نہ چلا اوروہ شخص باز نہ آیا تو اب سختی سے پیش آئے

اس کو سخت الفاظ کہے، مگر گالی نہ دے، نہ فحش لفظ زبان سے نکالے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو جو شخص ہاتھ سے کچھ کرسکتا ہے کرے۔ لیکن اس صورت میں  فتنے اور قانونی پہلو کو سامنے رکھے یعنی نہ خلافِ قانون کرے اور نہ ایسا طریقہ اختیار کرے سے جس فتنہ ہو۔

(3)…امربالمعروف کے لیے پانچ چیزوں  کی ضرورت ہے۔

(۱) علم۔ کیوں کہ جسے علم نہ ہو وہ اس کام کو اچھی طرح انجام نہیں  دے سکتا۔

(۲)اس سے مقصود رضائے الٰہی اور دینِ اسلام کی سربلندی ہو۔

(۳) جس کو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ شفقت و مہربانی کرے اور نرمی کے ساتھ کہے۔

(۴)حکم کرنے والا صابر اور بُردبار ہو۔

(۵) حکم کرنے والا خود اس بات پر عامل ہو، ورنہ قرآن کے اس حکم کا مِصداق بن جائے گا، کیوں  کہتے ہو وہ جس کو تم خود نہیں  کرتے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک ناخوشی کی بات ہے یہ کہ ایسی بات کہو، جس کو خود نہ کرو۔ اور یہ بھی قرآنِ مجید میں  فرمایا کہ ’’کیا لوگوں  کو تم اچھی بات کا حکم کرتے ہو اور خودا پنے کو بھولے ہوئے ہو۔ آپﷺ نے فرمایا،

مفہوم: (اے اہلِ ایمان!) ’’ قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے اور تم کو تاکید ہے کہ امر بالمعروف اور عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو، یا پھر ایسا ہوگا کہ (اس معاملے میں کوتاہی کی وجہ سے) اللہ تم پر اپنا عذاب بھیج دے گا۔ پھر تم اس سے دعائیں کروگے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔‘‘ (جامع ترمذی)

اور دعوت ِ دین کے لیے داعی کے اندر جذبۂ محبت، ایثار و قربانی، لب و لہجے میں مٹھاس اور مخاطب کی تکلیف دہ باتوں سے درگزر کر نا ضروری ہے۔ کیوں کہ اصل خوبی ہی حسنِ اخلاق ہے۔ یہ حسنِ اخلاق ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے کٹر دشمن بھی آپؐ کے سلوک اور رویے سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوجاتے تھے۔

یہی سبب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمانوں میں زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے۔ جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں۔‘‘ گویا ایمان اور اخلاق لازم و ملزوم ہیں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے کچھ تلخ باتوں اور ناخوش گوار رویّوں کا مظاہرہ ہوجاتا ہے، ایسے موقع پر ایک داعی کا فرض ہے کہ اجتماعی مفادات کے پیش نظر اعلیٰ ظرفی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے ان چیزوں سے صرفِ نظر کرے ۔

ویسے بھی معاف کردینا اور درگزر کا رویہ اختیار کرنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’ اور جو غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں، اور اللہ نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (آلِ عمران)

اور داعی حق کے لیے لازمی ہے کہ وہ آخرت کی کامیابی کو دنیا پر ترجیح دے اور لوگوں کی چیزوں سے امیدیں وابستہ نہ کرے ۔ اخلاقی اوصاف: داعی کو رذائل اخلاق سے پاک ہونا چاہیے۔ داعی کو اطاعت، معرفت، محبت اور خشیت الہٰی کا پیکر ہونا چاہیے۔ نیک نیتی، اخلاص، شکر گزاری اور تسلیم و رضا اس کا شعار ہو، اس کا مطمع نظر انسانیت کی فلاح و بہبود اور اصلاحِ احوال ہو۔

یہ اوصاف دعوت کی اثر پذیری کو چار چاند لگاتے ہیں۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم ایک ہی بات دو مختلف اشخاص سے سنتے ہیں۔ ایک دل کو بھاتی ہے اور دوسری سنی اور ان سنی کردیتے ہیں۔

آخر اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ جس کی بات دل میں اتر گئی اس کے پیچھے اعلیٰ اخلاق اوصاف اور کردار کی قوت کارفرما ہوتی ہے تب یہ کیفیت پیدا ہوئی۔ اثر پذیری کے لیے دل کا مادی مفادات سے خالی ہونا ضروری ہے بلکہ دنیوی فوائد کا خیال بھی دل میں نہ آئے۔ داعی ہمشیہ الحب فی اللہ والبغض فی اللہ پر عامل ہو محبت حضور کے لۓ ہو اور نفرت بھی خضور کے لۓ ہو ۔

یاد رکھیں!

حضور کی محبت تمام محبین کو ملاتی ہے ۔ یہ حضور کی محبت کی خصوصیت ہے اور دنیا کی محبت جدا کرتی ہے۔ اور اخلاص کے ساتھ کام کریں ۔ امام نووی فرماتے ہیں جوکہتا ہے میں مخلص ہوں وہ مخلص نہیں ہے ۔ خودکو مخلص بھی نہ کہو بلکہ ہمیشہ یہ کہو یااللہ ہمیشہ اخلاص کی دولت عطا فرما۔ اور اسکو پرکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگرکوٸ بندہ گمراہ و بدعقیدہ لوگوں کے خلاف سخت ہے تو دیکھو کہ یہ بندہ اپنوں کے ساتھ کیسا ہے ۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ سختی اسکے مزاج کا حصہ ہو ۔

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اور کسی کی تنقید کا پرواہ کۓ بغیر کام کرتے رہیں ۔ اور حافظ ملت کے اس قول پر عمل کریں ” ہرمخالفت کا جواب کام ہے“ یادرکھیں! تنقید،طنز،فقرےبازی سے حوصلہ نہ ہارو شورکھلاڑی نہیں تماشاٸ کرتےہیں

اور کبھی کسی مسلمان یا ذمہ دار عالم دین کی گفتگو سے اختلاف ہوجاۓ تو اس پر عمل کر لیا جاۓ۔

”کسی مسلمان کے قول و فعل کو حتی الامکان اچھے معنی پر محمول کرنا واجب ہے “

اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ دین پر عمل کی توفیق عطافرماے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *